Introduction-Zikr e Jameel -Hazrat Allaamah Kaukab Noorani Okarvi

وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیمِْ

اَللہُ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ… نے اپنی ذات و صفات کے مظہر کامل، حضور اکرم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو برہان بنا کر بھیجا۔ میرے آقا و مولیٰ، تاج دار مدینہ سے میرے معبود حقیقی میرے رب کریم کے جلوے ظاہر ہوئے۔ حسن الوہیت کے اس مظہر کامل کے سرتاپا ظاہری حسن و جمال کا بیان بھی روح کی تسکین اور قلب کی طمانینت کا باعث ہے۔ اس ذات با برکات کے ذکر جمیل سے خود میرے رب جلیل کا کلام، قرآن کریم، اول تا آخر آسودئہ اوراق ہے۔ یہ ذکر میرے معبود کو محبوب ہے۔ صدیاں گزر گئیں، جسے بھی اس محبوب کریم (ﷺ) سے نسبت محبت ہوئی، اس نے اسی ذکر جمیل کو شعار بنایا اور یہ بھی واقعہ ہے، جس نے جمال مصطفیٰ سے جس قدر آگہی پائی اور اسے تحریر و تقریر کا جزو بنایا وہ خود بھی اس ذکر سے وابستہ ہو گیا، بے شمار نام اس حوالے سے ہمارے لیے محبوب و محترم ہوئے۔

میرے ابا جان قبلہ، حضرت مجدّدِ مسلکِ اہلِ سنت، عاشقِ رسول، محبِ صحابہ و آلِ بتول، خطیبِ اعظم الحاج مولانا محمد شفیع اوکاڑوی  و ؄ نے نعت خوانی سے عشق رسول کے اظہار کی ابتدا کی تھی۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے پہلے کھیم کرن کے شہر سے انہوں نے شروع کر دیا تھا۔ اللہ کریم نے انہیں جو خصوصیات عطا کی تھیں، ہر ایک میں وہ درجۂ کمال پر تھے، آواز کو دیکھیے کہ انداز کو، لب و لہجہ تراشیدہ اور سوز و گداز سے ایسا لب ریز کہ سینے میں جا گزیں ہو جائے۔ یہ جذب دروں کا اعجاز تھا اور اصل میں تو یہ کرم الٰہی اور فیض نگاہ تھا… پنجابی زبان میں سراپائے رسول کے ذکر پر مشتمل کلام (سی حرفی، دو ہے وغیرہ) وہ پڑھا کرتے اور بارگاہ رسالت میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی  کا منظوم ہدیہ سلام بھی پڑھتے، انہیں یہ سعادت ملی کہ انہوں نے متد اول علوم دین کی تحصیل و تکمیل کر لی، اب اشعار ان پر خوب آ شکار بھی ہوئے۔ انہوں نے آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ کے مفاہیم و مطالب کی ترجمانی کرتے ہوئے اس ذکر جمیل سے صرف تقریروں ہی کو نہیں، تحریروں کو بھی سجایا اور یادگاربنایا، ان کی تقریر ہو کہ تحریر، ایسی مؤثر، ایسی دل نشیں، ایسی مدلل اور مکمل کہ اپنے مخاطب کو یوں جانیے، کسی جلوے سے سر شار کر دیتے تھے۔ وہ خطیب بے مثال تھے تو ادیب بھی باکمال تھے۔

’’ذکر جمیل‘‘ ان کی اولین تصانیف میں نمایاں اور شاہ کار ہے، اس کی پہلی اشاعت تقریباً بیالیس برس پہلے ہوئی تھی… یہ کھیم کرن سے ہجرت کے بعد، اوکاڑا شہر میں قیام کے دوران اور کراچی میں آمد سے بہت پہلے کی بات ہے… اس کا انتساب انہوں نے اپنے پیر و مرشد کے نام کیا اور اس کتاب کا نام ان کے فرزند ارجمند کے نام کی نسبت ، معنوی طور پر شامل کر کے ’’ذکر جمیل‘‘ رکھا۔ عربی نام ’’الذکر الجمیل فی حلیۃ الحبیب الخلیل‘‘ ہے۔ شروع میں ہر اشاعت پر تصحیح و اضافہ ہوتا رہا اور رفتہ رفتہ کتاب کی ضخامت بڑھتی رہی۔ ۱۹۷۱ء میں اس کتاب کی کتابت از سر نوکروائی گئی اور جدید قسم کی طباعت سے اسے آراستہ کیا گیا، جب سے اب تک اسی کا اعادہ ہو رہا ہے، یہ کتاب پچاس ہزار سے زائد تعداد میں شائع ہو کر دنیا بھر میں مقبول ہو چکی ہے۔ بھارت میں بھی اردو اور گجراتی میں شائع ہوئی ہے اور اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے مندرجات میں سے کچھ عنوان الگ رسائل کی صورت میں بھی مختلف اداروں نے شائع کر کے مفت تقسیم کیے، روزنامہ ’’نئی روشنی‘‘ کراچی، اسی کتاب کے مضامین، برسوں پہلے ہر جمعہ کی اشاعت میں شامل کرتا رہا۔

۲۱ رجب ۱۴۰۴ھ کو، ابا جان قبلہ علیہ الرحمۃ ، دارفنا سے داربقا کی طرف رحلت فرما گئے۔ ان کے بعد ان کی کتابوں کی اشاعت کے لیے ضیاء القرآن پبلی کیشنز کے محترم صاحب زادہ حفیظ البرکات شاہ نے مجھ سے رابطہ کیا۔ ابا جان قبلہ چاہتے تھے کہ ان کی تمام کتابوں کی طباعت بھی میں اپنے ذمے لوں، وہ میرے ذوق سے واقف تھے۔ ابا جان قبلہ علیہ الرحمہ کے بعد مجھے اپنا ہوش ہی کہاں تھا اور میرے ول ولے تو انہیں سے تھے، وہ کیا گئے، لگتا ہے سب کچھ چلا گیا… اس فقیر نے بھائیوں سے مشاورت کے بعد، محترم حفیظ البرکات شاہ صاحب کو حقوق اشاعت دے دئیے۔ انہوں نے طباعت و اشاعت کے کام کا آغاز ہی کیا تھا، اس لیے تمام تر استعداد کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ کتابوں کی خطاطی کروا کے انہوں نے کتابت کی روایتی غلطیوں کی تفتیش (مسودہ بینی) کے لیے خطاطی مجھے بھجوا دی… میرے شب و روز عرصے سے قلم اور کتاب سے وابستہ ہیں۔ ابا جان قبلہ علیہ الرحمۃ کے بعد کتنے انقلاب آئے، مجھے خود کو وقت اور امور کا پابند کرنے میں برسوں لگ گئے اور یوں ’’ذکرجمیل‘‘ کی طباعت میں تاخیر ہوتی گئی… تنہا حوالہ و حواشی دیکھنا اور اصل متن سے کتابت کی تصحیح کرنا آسان نہیں۔ ایک ایک حوالے کے لیے گھنٹوں ضخیم کتابوں کی ابواب در ابواب ورق گردانی اور اس کی تائید و تنقید میں مضامین تلاش کرنا پڑیں تو اندازہ ہو کہ کتاب کیسے ممکن ہو پاتی ہے۔ گزشتہ بارہ برسوں میں راقم السطور کو اپنی بارہ کتابیں بھی لکھنی پڑیں، ان کے انگریزی تراجم مکمل کرنے پڑے، سفر کی مصروفیات الگ رہیں، میں ابا جان قبلہ کی غیر مطبوعہ کتب کی طباعت کا کام ابھی تک نہ کر سکا، کچھ کراچی کے حالات نے بھی حواس کم متاثر نہیں کیے… سوچتا ہوں، ابا جان ہوتے تو ان پر کیا گزرتی؟ وہ اس شہر زرنگار اور شہریان با کمال کا یہ حال کہاں دیکھ پاتے!۔

گزشتہ جدید طباعت پر ابا جان قبلہ کے با کمال اساتذہ نے اس کتاب اور مصنف کے بارے میں اپنے گراں قدر خیالات تحریر فرمائے تھے اور اس وقت خالص دینی اور اب سیاسی شہرت رکھنے والے حضرت مولانا شاہ احمد نورانی نے بھی اپنے تاثرات قلم بند کیے تھے، انہیں من و عن شامل رکھا جا رہا ہے۔ اس نئی کتابت یا طباعت میں جو خامی رہ گئی ہو اسے میری کوتاہی جانیے، ہو سکے تو نشان دہی فرما دیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں تصحیح کر دی جائے۔ میں اپنے بھائی ڈاکٹر محمد سبحانی اوکاڑوی کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ نیوکلیر فارمیسی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد دو ماہ کی رخصت پر وطن آئے تو انہوں نے کتابت شدہ مسودے کی اغلاط کی چھان بین میں مجھ سے بڑا تعاون کیا، اللہ کریم انہیں خوش رکھے۔ محترم حفیظ البرکات شاہ صاحب نے طباعت میں کتنی توجہ کی ہے، یہ آپ کے سامنے ہے، اللہ کریم مسلک حق اہل سنت و جماعت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ان کا حوصلہ فزوں فرمائے… برسوں کی تاخیر پر معذرت خواہ ہوں، لیکن یہ بھی سچ ہے

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

۱۹۹۷ء کراچی                                            فقیر! کوکب نورانی اوکاڑوی غفرلہ