THE MIRACLE OF THE WELL WATER BY PROPHET-ﷺ GHAZWAA TABUUK
THE MIRACLE OF THE WELL WATER BY PROPHET-ﷺ
GHAZWAA TABUUK
حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کے ہمراہ غزوئہ تبوک کے لیے نکلے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کل انشاء اللہ تم تبوک کے چشمے پر ایسے وقت پہنچو گے کہ آفتاب گرم ہو جائے گا اور جو لوگ وہاں پہنچ جائیں ان کو چاہیے کہ وہ اس چشمے کے پانی کو ہاتھ نہ لگائیں۔
چنانچہ حضور ﷺ جب وہاں پہنچے تو اس میں بہت تھوڑا پانی تھا۔ حضور ﷺ نے اس سے تھوڑا تھوڑا پانی لے کر ایک برتن میں جمع فرمایا۔
ثُمَّ غَسَلَ فِیْہِ وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ ثُمَّ اَعَادَہٗ فِیْہَا فَجَرَتِ الْعَیْنُ بِمَآءٍ کَثِیْرٍ فَاسْتَسْقَی النَّاسُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ یَا مُعَاذُ اِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ اَنْ تَرٰی مَا ہٰہُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا
(مسلم: ۵۹۴۷، خصائص کبریٰ، ج۱، ص۲۷۳)
پھر اس میں اپنا چہرئہ اقدس اور دونوں ہاتھ دھوئے اور وہ پانی اس چشمے میں ڈال دیا تو وہ چشمہ جوش مارنے لگا اور پانی بہت زیادہ ہو گیا۔ چنانچہ سب لوگ پانی پی کر سیراب ہو گئے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا اے معاذ اگر تمہاری عمر دراز ہو گی تو تم دیکھ لو گے کہ یہ مقام باغوں سے بھرا ہو گا۔
حضور ﷺ نے جو پانی کو ہاتھ نہ لگانے کے لیے فرمایا،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ لگانے کا کوئی معنوی اثر ضرور ہوا کرتا ہے اوریہ اثر حسب حیثیت ہوتا ہے، اچھوں کا اچھا اور بروں کا برا، مگر چونکہ وہ اثر محسوس نہیں ہوتا اس لیے اس کو قبول کرنے میں معمولی عقلوں کو تامل ہوتا ہے لیکن اہل کشف اس کو دیکھتے ہیں۔
چنانچہ سیدی امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں کہ امام الائمہ سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ جب مسجد میں جاتے اور لوگوں کو وضو کرتے دیکھتے تو مستعمل پانی میں ان کو محسوس ہو جاتا تھا کہ یہ شخص فلاں قسم کا گناہ کرتا ہے، چنانچہ تنہائی میں اس کو کہہ دیتے کہ تم فلاں قسم کا گناہ کرتے ہو اس کو چھوڑ دو! اکثر لوگ تائب بھی ہو جاتے۔ آخر امام صاحب پر یہ امر شاق گزرا کہ لوگوں کے عیوب پر نظر پڑتی ہے، اس لیے دعا کی کہ الٰہی یہ کشف اٹھا لیا جائے۔ (میزان الکبریٰ، (اردو) ج۱، ص ۱۴۱، فضائل ذکر، ص ۱۴۹)
چونکہ امام صاحب کو گناہوں کی نجاست پانی میں محسوس ہوتی تھی۔ اس وجہ سے پانی کے مسئلہ میں آپ نے نہایت تشدد کیا یہاں تک کہ فقہائے حنفیہ نے دہ دردہ کی شرط لگا دی۔
اور یہی وجہ تھی کہ آن حضرت ﷺ کا دست مبارک جس چیز کو لگ جاتا تھا صحابہ کرام اس سے برکتیں حاصل کیا کرتے تھے۔
اور تعجب نہیں کہ ہمارے دین میں جو مصافحہ مستحسن ہے اس کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بزرگان دین کے ہاتھوں کی برکت حاصل کیا کریں، اور کسی بزرگ کی قبر کو جو ہاتھ لگا کر اپنے منہ پر پھیرتے یا بوسہ دیتے ہیں، غالباً اس میں بھی یہی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہو۔ غرض کہ چہرئہ نبوی حسن و جمال ایزدی کا مظہر اور خوبی و کمال کا معدن ہے ؎
خامۂ قدرت کا حسن دست کاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ
(اعلیٰ حضرت)