اور جو اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کے متعلق ہرگز یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ مردے ہیں۔ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں شاد ہوتے ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور خوش ہو رہے بہ سبب ان لوگوں کے جو ابھی تک ان سے نہیں آ ملے ان کے پیچھے رہ جانے والوں سے کہ نہیں ہے ان پر کوئی خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
ان دونوں آیتوں سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ شہدا زندہ ہیں نہ ان کو زبان سے مردہ کہنا چاہیے اور نہ دل میں ان کو مردہ گمان کرنا چاہیے۔ ان کی زندگی کی کیفیت و حقیقت ہم اپنے حواس و عقل سے نہیں سمجھ سکتے۔ لہٰذا ہمیں کلام الٰہی پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ وہ زندہ ہیں کھاتے پیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام پر خوشیاں مناتے ہیں۔ اگر ہم ان کی حیات کا انکار کریں یا تاویلیں کریں گے تو یہ ہماری جہالت و حماقت اور کلام الٰہی پر ایمان و یقین نہ ہونے کی کھلی دلیل ہو گی کیونکہ حیات کا صحیح اور حقیقی مفہوم وہ نہیں ہو گا جو ہماری ناقص عقل اور محدود شعور نے سمجھا ہے۔ بلکہ وہ ہو گا جو خالق حیات نے اپنے صاف و صریح اعلان کے ذریعہ قرار دیا ہے۔ جب شہداء کی زندگی قرآن پاک کی نص سے ثابت ہے تو انبیاء کرام اور صد یقین امت کی زندگی میں کیونکر شبہ کیا جا سکتا ہے جو بالاتفاق درجہ و مرتبہ میں شہداء سے اعلیٰ اور برتر ہیں۔ چنانچہ ان آیات کے تحت غزالیٔ دوراں، علامۃ العصر، حضرت مولانا سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:
’’بظاہر یہ آیات کریمہ شہداء (غیر انبیاء) کی حیات پر دلالت کرتی ہیں لیکن در حقیقت انبیاء علیہم السلام بالخصوص نبی کریم ﷺ اس میں شامل ہیں اس لیے کہ دلائل و واقعات کی روشنی میں یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام شہید ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں شہادت کا درجہ پایا اور مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کے عموم میں بلاشبہ آپ داخل ہیں۔