Conclusion Introduction Zikr e Jameel
صلح حدیبیہ کے بعد جب عروہ بن مسعود
ثقفی اپنی قوم میں واپس آئے تو آ کر کہا اے قوم:
وَاللہِ لَقَدْ وَفَدْتُّ عَلَی الْمُلُوْکِ وَ وَفَدْتُ عَلٰی قَیْصَرَ وَ کِسْرٰی وَالنَّجَاشِیِّ وَاللہِ اِنْ رَاَیْتُ مَلِکًا قَطُّ تَعَظَّمَہٗ اَصْحَابُہٗ مَا یُعَظِّمُ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا وَاللہِ اَنْ یَّتَنَخَّمَ نَخَامَۃً اِلَّا وَقَعَتْ فِیْ کَفِّ رَجُلٍ مِّنْہُمْ فَدَلَّکَ بِہَا وَجْہَہٗ وَجَلْدَہٗ وَاِذَا اَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوْا اَمْرَہٗ وَاِذَا تَوَضَّاءَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِہٖ وَاِذَا تَکَلَّمَ خَفِضُوْا اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہٗ وَمَا یَحِدُّوْنَ النَّظْرَ اِلَیْہِ تَعْظِیْمًا لَّہٗ وَاِنَّہٗ قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوْہَا
(زرقانی علی المواہب، ج۲، ص ۱۹۲، بخاری: ۲۷۳۱ )
خدا کی قسم! مجھے بادشاہوں کے دربار میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے قیصرو کسریٰ اور نجاشی کے دربار بھی دیکھے ہیں۔ خدا کی قسم میں نے ہرگز کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے اصحاب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم اصحاب محمد، محمد (ﷺ) کی کرتے ہیں۔ واللہ! وہ رینٹ یا تھوک یا بلغم نہیں پھینکتے مگر وہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر ہوتی ہے اوروہ اس کو اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے اور جب وہ کوئی حکم کرتے ہیں تو وہ تعمیل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی پر وہ اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں لڑ مریں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو سب اپنی آوازیں پست کر لیتے ہیں اور ان کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے کوئی ان کی طرف تیز نگاہی سے نہیں دیکھ سکتا۔ انہوں نے تم پر رشد و ہدایت کا کام پیش کیا ہے تو تم اس کو قبول کر لو۔
اس ایک روایت سے ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کی کس قدر تعظیم و توقیر کرتے تھے۔
امام اجل حضرت امام قاضی عیاضؓ فرماتے ہیں:
وَاعْلَمْ اَنَّ حُرْمَۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِہٖ وَ تَوْقِیْرِہٖ وَ تَعْظِیْمِہٖ لَازِمٌ کَمَا کَانَ حَالُ حَیَاتِہٖ وَ ذٰلِکَ عِنْدَ ذِکْرِہٖ وَ ذِکْرِ حَدِیْثِہٖ وَ سُنَّتِہٖ وَ سِمَاعِ اسْمِہٖ وَسِیْرَتِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
(شفا شریف، ج۲، ص ۳۲)
جان لو! بے شک نبی کریم ﷺ کی عزت و حرمت اور آپ کی تعظیم و توقیر آپ کی وفات کے بعد بھی اسی طرح ضروری و لازم ہے جس طرح آپ کی ظاہری حیات میں ضروری و لازم تھی، اس کا اظہار خصوصاً آپ کے ذکر مبارک اور آپ کی حدیث شریف کی تلاوت اور آپ کی سنت اور آپ کے نام مبارک اور آپ کی سیرت طیبہ کے سننے کے وقت ہونا چاہیے۔
ثابت ہوا کہ حضور ﷺ کی تعظیم و توقیر عین ایمان بلکہ روح ایمان ہے اور اس پرفتن دور میں جب کہ لوگوں کے دلوں سے حضور سید عالم ﷺ کی محبت و عظمت نکلتی جا رہی ہے نہایت ضروری و لازم ہے کہ مسلمانوں کے قلوب میں آپ کی سچی محبت و عقیدت اور عزت و عظمت اجاگر کی جائے۔
آپ کا ذکر عبادت ہے
حضور سید عالم ﷺ فرماتے ہیں:
ذِکْرُ الْاَنْبِیَآءِ مِنَ الْعِبَادَۃِ وَ ذِکْرُ الصَّالِحِیْنَ کَفَّارَۃٌ (فتح الکبیر، ج۲، ص، ۲۰، کنزالعمال:۴۳۴۳۸)
ذکر انبیاء عبادت ہے اور ذکر صالحین کفارہ (سیئات) ہے۔
جب انبیاء و اولیاء کا ذکر عبادت اور گناہوں کا کفارہ ہے تو حضور سید الانبیاء والمرسلین حبیب رب العالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ذکر کس درجہ کی عبادت اور کس قدر باعث رحمت و برکت اور کفارہ سیئات ہو گا۔ بلاشبہ آپ کا ذکر مبارک سرمایہ ایمان اور تسکین دل و جان ہے۔
اسی مبارک مقصد کے پیش نظر اس گنہ گار، سیہ کار، سگ درگاہ مصطفیٰ ﷺ نے اس کتاب کی تالیف کی ہے۔ اگرچہ مجھے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا پورا پورا احساس و اعتراف ہے۔ بھلا کہاں مجھ سا گنہ گار انسان اور کہاں سردار انبیاء حبیب کبریا ﷺ کی عظمت و شان کا بیان، مگر دور حاضر کے بعض بے ادب اور گستاخ افراد (جو توحید و اسلام کی آڑ لے کر مسلمانوں کے دلوں سے انبیاء و اولیاء کی عظمت کو دور کر رہے ہیں) کے ناپاک ارادوں اور خطرناک سازشوں سے باخبر ہو کر میرے دل میں درد و احساس پیدا ہوا تو میں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے کمر ہمت باندھی اور یہ چند ورق آپ کے پیش نظر ہیں۔
مجھے اللہ کے فضل و کرم سے امید کامل ہے کہ حضور ﷺ کے اس ذکر جمیل سے انشاء اللہ مومنوں کے دل نور ایمان و عرفان سے جگمگا اٹھیں گے اور انہیں اطمینان و سرور حاصل ہو گا۔ اور منکرین عظمت و شان مصطفیٰ ﷺ کی کوئی گمراہ کن تقریر یا تحریر ان پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بہ طفیل اپنے حبیب پاک ﷺ میری اس سعی کو قبول فرما کر مسلمانوں کے لیے مفید و نافع اور میرے لیے کفارہ سیئات بنائے اور قیامت کے دن اپنے حبیب ﷺ کے ثنا خوانوں میں میرا حشر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
اس کتاب میں حضور ﷺ کے حلیہ شریف، سر انور سے لے کر پائے اقدس تک ہر عضو مبارک کے خصائص، شمال، فضائل اور معجزات و برکات کا بیان ہے۔ اس مناسبت سے اس کتاب کا نام مبارک ’’الذکر الجمیل فے حلیۃ الحبیب الخلیل‘‘ (ﷺ) رکھتا ہوں۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَ بَارَکَ وَسَلَّمَ
نا چیز
محمد شفیع الخطیب عفا اللہ عنہ (اوکاڑوی)